(آپ بھی اپنے مشاہدات لکھیں، چاہے بے ربط لکھیں، تحریر ہم خود سنوار لیں گے، یہ آپ کے لیے صدقہ جاری ہے۔ ادارہ)
میں1987ءسے مریضوں کے علاج سے منسلک ہوں۔ قریباً 36سال تک شعبہ طب کا استاد رہا ہوں۔ مریضوں کو اپنے وارڈ میں مرتے دیکھتا رہا مگر ان میں سے کوئی مر کر دوبارہ زندہ نہ ہوا۔ میڈیکل کے طلباءکو موت کی نشانیاں پڑھائیں، ان میں سے آنکھ کی پتلی کا پھیل جانا موت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جس کو ہم Brain Death کی علامات میں شمار کرتے ہیں۔ 1980ءمیں ڈیرہ غازی خان میں تبلیغی اجتماع تھا۔ ٹیلی فون پر اطلاع ملی کہ حاجی صاحب سخت بیمار ہیں، آکر دیکھیں ۔چنانچہ میں اور پروفیسر قاضی عبدالواحد مرحوم دونوں ڈیرہ گئے تو حاحی صاحب بہت کمزوری کی حالت میں بستر پر سو رہے تھے اور پاخانہ کے راستہ سے خون جاری تھا۔ہم دونوں نے حاجی صاحب سے ملتان چلنے کی درخواست کی جو انہوں نے مان لی۔ نشتر ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے شعبہ میں داخل کرا کر سرجن صاحب سے مشورہ کیا تو پتہ چلا کہ حاجی صاحب کے معدہ کے زخم سے خون آرہا ہے، آپریشن ضروری ہے۔ جب دل کی کیفیت مانیٹر کی گئی تو دل کی رفتار، بلڈ پریشر اور نبض تسلی بخش نہیں تھی۔ سرجن نے لکھ دیا کہ خون کی کمی کی وجہ سے آپریشن نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ خون کیلئے بندوبست کیا گیا۔( حاجی صاحب سے محبت کرنے والوں نے تو خون دینے کیلئے لائنیں لگا دیں کئی حضرات نے دو دو بوتلیں دیں۔ چنانچہ چند منٹوں میں خود کی 150بوتلوں کا بندوبست ہو گیا۔ دونوں بازوﺅں اور پاﺅں سے چار خون کی بوتلیں بیک وقت چل رہی تھیں) اس کے سوا حاجی صاحب کا علاج ممکن نہ تھا۔ نشتر کی جامع مسجد میں پاکستان بھر سے لوگ آئے ہوئے تھے اور ان کی صحت یابی کیلئے دعا کی جارہی تھی۔ دوستوں کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اطلاع کر دی۔ انہوں نے حرمین شریفین میں دعا کا بندوبست کر دیا۔ میں اکثر حاجی صاحب کی خدمت میں حاضری دیتا رہا۔ ان کا بستر ہر وقت خون سے بھرا رہتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ مفتی زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ عیادت کیلئے تشریف لائے تو حاجی صاحب نے اپنی کیفیت بتائی اور پوچھا کہ اس حالت میں نماز کیسے ادا کروں....؟ تومفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا اسی حالت میں تیمم کرکے نماز پڑھیں، قضا نہ کریں۔ حاجی صاحب کی یہ حالت کئی دن تک رہی۔ آخر ایک دن عصر کے وقت کمرہ میں کافی سینئر ڈاکٹر کھڑے تھے، میں بھی وہاں تھا۔ حاجی صاحب نے ڈاکٹر محمد طیب صاحب لاہور والے سے کہا کہ میرے جانے کا وقت ہے مجھے چھ کلمے پڑھائیں۔ حاجی صاحب نے چھ کلمے پڑھے اوراس کے بعد چپ کرگئے۔ لوگوں نے رونا شروع کر دیا۔ دل کے مانیٹر موت کے آثار بتا رہے تھے۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ باہر جا کرروئیں۔ چنانچہ سب باہر چلے گئے۔ میں نے تفصیل سے حاجی صاحب کا معائنہ کیا، دل اور پھیپھڑوں نے کام بند کر دیا تھا۔ آنکھوں کی پتلی پھیل چکی تھی اور بیٹری کی روشنی سے کوئی حرکت نہیں تھی۔ نرس روئی لے آئی، ہم نے حاجی صاحب کا خون صاف کیا۔ بستر کو، جسم کو صاف کیا اور خون کی چاروں بوتلیں نکال دیں۔ حاجی صاحب کا پہلو ایک طرف کرکے صاف کیا، پھر دوسرے پہلو پر لٹا کر دوسرا پہلو صاف کیا۔ بستر کی چادر کو بدلا اور جب اچھی طرح صاف کرنے کے بعد حاجی صاحب کو سیدھا لٹایا تو حاجی صاحب نے بولنا شروع کر دیا اور پہلا کلام جو تھا وہ یہ کہ .... ”سب اللہ سے ہونے کا یقین پیدا کرلو۔“ یہ بات حاجی صاحب نے تین مرتبہ دوہرائی۔ افسوس کہ اس وقت کوئی مرد نہیں تھا جس کو میں اس بات کا گواہ پیش کرتا۔ جب یہ بات حاجی صاحب نے تین دفعہ کی تو میں نے کہا حاجی صاحب! اسلام علیکم! آپ کیسے ہیں....؟ حاجی صاحب نے و علیکم السلام کہا اور فرمایا میں ٹھیک ہوں۔ اس کے بعد میں نے نبض دیکھی، بلڈ پریشر چیک کیا اور دل کا مانیٹر لگایا تو اب تو سب ٹھیک تھا۔ مجھے اس بات کا یقین نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا تھا اور اب کیا ہو رہا ہے۔
میں نے باہر جاکر رونے والوں کو بتایا کہ حاجی صاحب زندہ ہیں مگر کسی نے نہ مانا۔ میں ان میں سے ایک کو اندر پکڑ کر لایا، اس نے حاجی صاحب کو زندہ دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور باہر جا کر سب کو بتایا تو لوگوں نے رونا بند کر دیا۔ خون کی بوتلیں پھر جاری کر دی گئیں۔ سرجن صاحب کوبلا کر دوبارہ حاجی صاحب کو دکھایا تو وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ کیا یہ وہی مریض ہے؟ اس کا دل بدل گیا ہے۔ حاجی صاحب کا تقریباً تین گھنٹے آپریشن ہوا۔ آپریشن روم کے ساتھ سرجن روم میں ہم سب دعا کرتے رہے۔ حاجی صاحب کا ”مُنا“ لگاتار نوافل پڑھتا رہا۔ جب حاجی صاحب کو تین گھنٹے کے بعد باہرلایا گیا۔ انکی صحت یابی کی رفتار اتنی زیادہ تھی کہ چھٹے دن میرے گھر آگئے۔ مجھے ہدیہ دیا اور شکریہ ادا کیا۔ میں نے اکرام کرنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے روک دیا۔ میں نے آپریشن کے ٹانکوں کا پوچھا جو آپریشن کے دس دن بعد کاٹے جانے تھے تو انہوں نے اپنے پیٹ سے کپڑا اوپر کیا تو کوئی ٹانکہ نہیں تھا، صرف پرانے آپریشن کی لکیر نظر آرہی تھی۔پھر میں نے پوچھا کہ آپ نے چھ کلمے ہمارے سامنے پڑھے، پھر آپ مر گئے تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں دو فرشتے مجھے جنت البقیع میں لے گئے، میری قبر کی جگہ بتائی، اسی دوران تیسرا فرشتہ آیا، اس نے کہا کہ ان کو واپس لے جائیں۔ انہوں نے اور کام کرنا ہے تو میں نشتر ہسپتال واپس آگیا۔ نشتر ہسپتال میں بیماری کے دوران حاجی صاحب کو 70 کے قریب خون کی بوتلیں لگیں۔ یہ اندازہ لگانا کہ حاجی صاحب کتنی دیر مردہ رہے، مشکل ہے۔ اندازاً 15منٹ یا زیادہ ہوں گے۔چند سال قبل ہمارے ہڈی جوڑ کے پروفیسر کھیلتے ہوئے میدان میں بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ ان کو فوری ہسپتال لایا گیا، دل کی حرکت کو چالو کر دیا گیا جس سے وہ زندہ ہو گئے مگر چند منٹ دماغ کو خون نہ ملنے کی وجہ سے Brain Death ہو گئی۔ اب یہ پروفیسر صاحب زندہ ہیں، چل پھر رہے ہیں مگر پہچان نہیں سکتے۔ اپنے بچوں، بیوی، نوکروں کو بھول چکے ہیں۔ ان کی نوکری ختم ہو گئی اور چند سالوں سے گھر میں رہ رہے ہیں۔ یہ ہے فرق Brain Death کا ایک دنیا دار میں اور ایک داعی کے درمیان۔ داعی کافی دیر مرنے کے بعد جب زندہ ہوتا ہے تو ٹھیک ہوتا ہے کیونکہ حاجی صاحب کو مر کر زندہ ہوئے 24سال ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کا واقعہ کافی عرصہ پہلے طاہر شاہ صاحب کوئٹہ والے کے ساتھ ہوا تھا۔ جب بھی میں رائے ونڈ جاتا تھا تو بتایا جاتا کہ طاہر شاہ صاحب کافی دیر مر جانے کے بعد زندہ ہوئے۔ شاہ صاحب دعوت کے کام میں کوئٹہ میں مشہور تھے۔ سول سیکرٹریٹ میں ملازم تھے اور دعوت کے کام کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا۔ شاہ صاحب کو دل کا دورہ پڑا۔ ہسپتال میں داخل ہوئے اور وہاں ایک فرشتہ نے آکر ان کو بتایا کہ احکم الحاکمین کے پاس چلنا ہے۔ شاہ صاحب ہسپتال میں مر چکے تھے۔ ان کو گھر لے جانے کیلئے گاڑی کا بندوبست کیا گیا۔ سٹریچر پر ان کی میت کو ڈالکر گاڑی میں رکھا گیا، گاڑی چل پڑی اسی دوران شاہ صاحب کی روح واپس جسم میں آگئی تھی۔ وہ گاڑی میں اٹھ بیٹھے، گاڑی کا ڈرائیور اور ساتھ بیٹے ہوئے رشتہ دار ڈر کے ما رے ان کو تنہا چھوڑ گئے۔ شاہ صاحب نے گاڑی سے اتر کررکشہ کو بلایا، جب رکشہ قریب آیا تو گاڑی کے ڈرائیور نے رکشہ والے کو بھگا دیا۔ مجبور ہو کر شاہ صاحب پیدل گھر کی طرف چل پڑے۔ جب گھر پہنچے تو گھر والے ڈر سے گھر خالی کر گئے۔ شاہ صاحب نے اپنی بیوی کو بلایا اور بتایا کہ میں مرا نہیں تھا ڈاکٹروں نے غلط بتایا تھا۔ بڑی کوشش سے ان کی اہلیہ ان کے پاس آئیں اور حالات آہستہ آہستہ ٹھیک ہو گئے۔ 1990ءمیں میری جماعت کی تشکیل کوئٹہ میں ہوئی۔ وہاں طاہر شاہ صاحب بیٹھے تھے۔ ان کو بلایا، وہ دوسرے دن صبح کے وقت ہماری جماعت کومسجد میں ملے اور انہوں نے اوپر والے حالات سنائے جو ساری جماعت نے سنے۔ شاہ صاحب نے ہمیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا دین سب سے پیارا ہے، جو دین کی محنت میں لگ جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے پیار کرتے ہیں اور زندگی بھی بڑھا دیتے ہیں۔ اوپر والے دو واقعات اس چیز کا ثبوت ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 651
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں